کتنے خوش فہم ہو چشمہ جو چڑھا رکھا ہے

غزل| رشید کوثرؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

کتنے خوش فہم ہو چشمہ جو چڑھا رکھا ہے
جیسے قدرت نے ہر اک رنگ ہرا رکھا ہے
روح محبوس نہیں شکریہ اس کا جس نے
غم کے زنداں میں بھی روزن تو کھلا رکھا ہے
ہم تو رشکین دنانیر و دراہم تھے بہت
یہ تو ہر شخص کے کاندھے پہ جوا رکھا ہے
لحظے لحظے کو عطا کر کے قیامت کا مزاج
عدل دادار نے محشر پہ اٹھا رکھا ہے
پھر غنیمت ہے وہی نام جو رکھ دیں ماں باپ
ورنہ فرعون نے اپنا تو خدا رکھا ہے
اس نے جو خوش ہے کہ یہ پیار ہے پہلا پہلا
دوسرے پیار کا منصوبہ بنا رکھا ہے
غارتِ جاں بھی وہی آفتِ ایماں بھی وہی
ایک شے جس کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
جب سے دنیا نے جتایا ہے کہ پردیسی ہو
اپنا اک اور جہاں ہم نے بسا رکھا ہے
عشق کی بھی کچھ ادائیں ہیں تمھاری ہی نہیں
گاہے گاہے تمھیں قصداً بھی خفا رکھا ہے
اپنی ہی شان میں اک فقرۂ نوشیں اس نے
اپنے پالے ہوئے طوطے کو رٹا رکھا ہے
ہم کو یاروں سے نبھانے کا سلیقہ بھی نہیں
دشمنوں کو بھی حریفوں نے ملا رکھا ہے
مجھ کو آئینہ دکھاتے ہو مگر منھ اپنا
تم نے آئینے کی اوجھل میں چھپا رکھا ہے
لیجئے دل کو جدائی کے مزے یاد آئے
اب یہ کہتا ہے ملاقات میں کیا رکھا ہے
آم کی فصل نہیں کشت شکیبائی ہے
عمر کھپ جائے گی کچھ آج مزہ رکھا ہے
جس کا آموختہ پڑھواتی ہے فطرت ہمہ روز
بہ تکلف وہ سبق ہم نے بھلا رکھا ہے

درد ہی اول و آخر ہے مگر وقفے کا
نام اک طفل تسلی نے شفا رکھا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام