یہی نا کہ دنیا ملامت کرے گی ہمیں پر بہکنے کا الزام رکھ دو

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

یہی نا کہ دنیا ملامت کرے گی ہمیں پر بہکنے کا الزام رکھ دو
جو تم میں نہیں حوصلہ میکشی کا خدا کے لیے ہاتھ سے جام رکھ دو
یہ جلّاد موسم ، یہ قاتل بہاریں ، پھر اس پر گلابی گلابی پھواریں
نہ چھوڑیں جو ایسے میں بھی پارسائی تم اُن کے لیے کوئی انعام رکھ دو
عزیز اب بھی ہے جن کو نام اپنا اپنا اٹھا لیں گے خود ہی وہ جام اپنا اپنا
مگر تم ذرا میکدے سے اٹھا کر یہ رنگیں صلیبیں سرِ عام رکھ دو
سحر کو بچھڑتے ہیں جتنے بھی دلبر وہ پھر شام کو لوٹ آتے ہیں اکثر
جو لینی ہو تم کو ہماری دعائیں سحر کی ہتھیلی پہ اک شام رکھ دو
تمہیں حق ہے پیش آؤ تم بے رخی سے ہمیں تو فقط کام ہے روشنی سے
نہ چاہو دکھانا جو تم روئے زیبا دیا ہی جلا کر لبِ بام رکھ دو
بہت مجھ پہ احسان ہوگا تمہارا بس اتنی سی تکلیف کر لو گوارا
کسی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے مرے سامنے میرا انجام رکھ دو

وہیں لوٹ آؤ چلے تھے جہاں سے نئے دکھ ملیں گے بھلا اب کہاں سے
قتیلؔ اس تکلّف سے بہتر یہی ہے پرانے دکھوں کا نیا نام رکھ دو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام