برسات میں ٹپکتی ہوئی چھت بنا ہوا

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

برسات میں ٹپکتی ہوئی چھت بنا ہوا
سر پر ہے آسمان مصیبت بنا ہوا
تپتی ہوئی زمیں پہ جھلسنے لگے ہیں پاؤں
موسم ہے بارشوں کی علامت بنا ہوا
لیتا ہے ساتھ ساتھ زمانہ مرا حساب
ہر پل مرے لئے ہے قیامت بنا ہوا
کرنا مجھے نہ دفن کسی محتسب کے پاس
میرا کفن ہے میری وصیت بنا ہوا
مجھ سے زیادہ جس میں تھا اک بے وفا کا ہاتھ
وہ عشق اب بھی مجھ پہ ہے تہمت بنا ہوا
بے احتیاط مجھ سے زیادہ تھا جو رقیب
اب سر سے پاؤں تک ہے نصیحت بنا ہوا
میں بِک رہا ہوں اپنی کتابوں کے ساتھ ساتھ
ہر اہلِ ذوق ہے مری قیمت بنا ہوا
سیکھا نہ کچھ کسی نے مجھے دیکھ کر قتیلؔ
میں خود ہوں اپنے واسطے عبرت بنا ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام