یاد ہے اب تک سانولا چہرہ ساعت چاند نکلنے کی

غزل| اسلمؔ کولسری انتخاب| بزم سخن

یاد ہے اب تک سانولا چہرہ ساعت چاند نکلنے کی
ہم نے تو بس آہ بھری تھی باقی بات غزل نے کی
شہر کے چھوٹے سے کمرے میں یاد آ کر تڑپا جائے
گاؤں کی چاندنی راتوں میں آواز ہوا کے چلنے کی
ہم تو سانسوں کی حدت سے راکھ میں ڈھلتے رہتے ہیں
آپ نے کیوں زحمت فرمائی منہ سے آگ اگلنے کی
اپنی خواہش اور کوشش تھی بات مکمل ہو جائے
اور اس شوخ کو عادت تھی تفریحاً بات بدلنے کی
جیسے کوئی لال پرندہ ہو آکاش کی مٹھی میں
مت پوچھو جو حالت دل کی اس نیلے آنچل نے کی
پیڑوں سے چھن چھن کر آئے جلتے سر بانسریا کے
ایک ستم سانول نے ڈھایا ایک جفا جنگل نے کی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام