ان کی طلب میں خود بھی تڑپنا اور ہمیں تڑپانا بھی

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

ان کی طلب میں خود بھی تڑپنا اور ہمیں تڑپانا بھی
کہنے کو یہ دل ہے اپنا ہے لیکن بے بیگانہ بھی
کفر نہ ایماں دین نہ دنیا یاس و تعطل خوف و ہراس
ایسے بےغیرت جینے سے بہتر ہے مر جانا بھی
نام کی مسجد نام کے مندر آج بھی لاکھوں ہیں لیکن
مدت گزری ٹوٹ چکا ہے کعبہ بھی بت خانہ بھی
اہل جہاں کے دل ہیں پتھر پتھر میں نرمی مت ڈھونڈ
لا حاصل ہے ان بہروں کو دل کی بات سنانا بھی
تیرے سوا دنیا میں دے گا ان زخموں کا مرہم کون
جن کو چھپانا بھی ناممکن ، ناممکن دکھلانا بھی
ہائےوہ فرطِ یاس کا عالم ہائے وہ رنگِ شدّتِ غم
جب ناممکن ہو جاتا ہے دو آنسو ٹپکانا بھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام