اپنی کشتی کو روانی سے الگ رکھتا ہوں

غزل| رئیسؔ انصاری انتخاب| بزم سخن

اپنی کشتی کو روانی سے الگ رکھتا ہوں
آگ ہوں آگ کو پانی سے الگ رکھتا ہوں
ایک مدت سے تجھے دل میں بسا رکھا ہے
میں تجھے یاد دہانی سے الگ رکھتا ہوں
وہ سنے گا تو چھلک اٹھے گی آنکھیں اس کی
اس لئے خود کو کہانی سے الگ رکھتا ہوں
وہ جو بچپن میں ترے ساتھ پڑھا کرتا تھا
ان کتابوں کو نشانی سے الگ رکھتا ہوں
تذکرہ اس کا غزل میں نہیں کرتا ہوں رئیسؔ
میں اسے لفظ و معانی سے الگ رکھتا ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام