داغ دنیا نے دئے زخم زمانے سے ملے

غزل| کیفؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

داغ دنیا نے دئے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
چار دن کی ہے یہ دنیا تو ضروری ہے میاں
ایک انسان سے انسان ٹھکانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے
ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے
آج ناصح نے یہ کہہ کر مرا پیچھا چھوڑا
آپ دیوانہ ہے جو ایسے دیوانے سے ملے
اک نئی عمر ملی ایک نیا زخم ملا
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں افسانہ بہ لب دنیا میں
ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو ائے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام