ہائے ! لوگوں کی کرم فرمائیاں

غزل| کیفؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

ہائے ! لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں ، بدنامیاں ، رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں ، مجبوریاں ، تنہائیاں
کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات
کروٹیں ، بے تابیاں ، انگڑائیاں
کیا یہی ہوتی ہے شامِ انتظار
آہٹیں ، گھبراہٹیں ، پرچھائیاں
میرے دل کی دھڑکنوں میں رہ گئیں
چوڑیاں ، موسیقیاں ، شہنائیاں
دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ، ناکامیاں ، پسپائیاں
رہ گئیں اک طفلِ مکتب کے حضور
حکمتیں ، آگاہیاں ، دانائیاں
زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں ، برکھا رتیں ، پروائیاں
کیفؔ ! پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں ، خاموشیاں ، گہرائیاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام