نامِ نبیؐ تو وردِ زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے

نعت| تابشؔ مہدی انتخاب| بزم سخن

نامِ نبیؐ تو وردِ زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی یقیناً کوئی کمی کردار میں ہے
یٰسیںؐ طٰہٰؐ شان ہے جس کی رحمتِ عالمؐ جس کا لقب
ہائے وہ سنگ و خشت کی زد پر طائف کے بازار میں ہے
ملکوں ملکوں شہروں شہروں دیکھ چکے ہیں ہم لیکن
ایسا رنگ و نور کہاں جو کوئے شہِ ابرار میں ہے
صدیقؓ و حیدرؓ کے مقامِ عز و شرف کا کیا کہنا
ایک تو ہے بستر پہ نبیؐ کے اور اک ثور کے غار میں ہے
قتل کی خاطر گھر سے عمرؓ بھی طیش میں نکلے ہیں لیکن
ان کو کیا معلوم کہ ان کی مانگ بھی اس دربار میں ہے
ملکِ ہدیٰ کے تیسرے سلطاں ناشرِ قرآں ہیں عثماںؓ
رشکِ ملائک تھا جو حیا کا نور ان کے کردار میں ہے

جس محفل میں جس مجلس میں نعت پڑھی ہے تابشؔ نے
اس کو یہ محسوس ہوا وہ آقاؐ کے دربار میں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام