دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

غزل| خواجہ حیدر علی آتشؔ انتخاب| بزم سخن

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے نشہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام