یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے

غزل| خواجہ حیدر علی آتشؔ انتخاب| بزم سخن

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغرِ مے نقرئی سبو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے
یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخِ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے
سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام