خوشبو کا ہاتھ تھام کر اس کے نگر گئیں

غزل| فرات غضنفر انتخاب| بزم سخن

خوشبو کا ہاتھ تھام کر اس کے نگر گئیں
کچھ آرزویں دل کی بڑا کام کر گئیں
چمکی جو ان کے رخ پہ تبسم کی اک کرن
آنگن میں میرے آ کے بہاریں ٹہر گئیں
سر سے خیال یار کی چادر سرک گئی
صبحیں اداس ہو گئیں شامیں ٹھٹھر گئیں
کیوں شہرِ روشنی کے در و بام بجھ گئے
تاریکیاں یہ کیسی رگوں میں اتر گئیں
چھاؤں تھی جس کی گھر پہ وہ اک پیڑ کیا ہوا
آنگن تھا جن کے دم سے وہ چڑیاں کدھر گئیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام