کیا کہہ کے عندلیب چمن سے نکل گئی

غزل| امیر اللہ تسلیمؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

کیا کہہ کے عندلیب چمن سے نکل گئی
کیا سن لیا گلوں نے کہ رنگت بدل گئی
ایسا کہاں رفیق جو دیتا قلق کے ساتھ
اک جان تھی سو وقت پہ وہ بھی نکل گئی
ائے جاں شبِ فراق کا صدمہ نہ پوچھئے
وہ حال تھا کہ موت بھی بالین سے ٹل گئی
مجھ کو دیا وصال نے بھی صدمۂ فراق
سو سو طرح کی دل سے تمنا نکل گئی
گہرائی تھی فراق میں لیکن ہزار شکر
باتیں وہ دل نے کیں کہ طبیعت بہل گئی
تسلیمؔ آج تک ہے وہی شعر و شاعری
بڈھے ہوئے مگر نہ تمہاری زٹل گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام