زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے

غزل| منظرؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے
دھوپ بھی ہماری ہے چھاؤں بھی ہماری ہے
غم گسار چہروں پر اعتبار مت کرنا
شہر میں سیاست کے دوست بھی شکاری ہے
موڑ لینے والی ہے زندگی کوئی شاید
اب کے پھر ہواوؤں میں ایک بے قراری ہے
حال خوں میں ڈوبا ہے کل نہ جانے کیا ہوگا
اب یہ خوفِ مستقبل ذہن ذہن طاری ہے
میرے ہی بزرگوں نے سر بلندیاں بخشیں
میرے ہی قبلے پر مشقِ سنگ باری ہے
اک عجیب ٹھنڈک ہے اس کے نرم لہجے میں
لفظ لفظ شبنم ہے بات بات پیاری ہے
کچھ تو پائیں گے اس کی قربتوں کا خمیازہ
دل تو ہوچکے ٹکڑے اب سروں کی باری ہے
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں
کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے

گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظرؔ
شہر میں ہمارے تو جو بھی ہے مداری ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام