میں سوچ رہا ہوں گلشن کی تزئین کا ساماں کیا ہوگا

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

میں سوچ رہا ہوں گلشن کی تزئین کا ساماں کیا ہوگا
تخریب کا داعی ہر گل ہے تعمیر کا امکاں کیا ہوگا
فیضانِ صبا سے خندہ بہ لب اک خارِ مغیلاں کیا ہوگا
آغوشِ خزاں کا پروردہ مانوسِ بہاراں کیا ہوگا
حالات سے ڈرنے والوں کو حالات کا عرفاں کیا ہوگا
ساحل پر بیٹھے رہنے سے اندازۂ طوفاں کیا ہوگا
اسلام نے آ کر بتلایا انساں کو مقامِ انسانی
ائے اہلِ جہاں اس سے بڑھ کر تہذیب پہ احساں کیا ہوگا
بے کل ہے صبا ، مغموم ہے گل ، فریاد بہ لب ہے ہر بلبل
آغازِ بہاراں جب یہ ہے انجامِ بہاراں کیا ہوگا
تمئیزِ خیر و شر نہ رہی ادراکِ حق و باطل نہ رہا
ائے اہلِ جہاں! اسے بڑھ کر پھر فتنۂ دوراں کیا ہوگا
آرام سے سونے والوں کو توفیقِ فغاں ہو کیا حاصل
جو بسترِ راحت پر لیٹے وہ صبح کو نالاں کیا ہوگا
آزاد طبیعت ہو جس کی کیوں شاد اسیری میں وہ رہے
طائر ہے چمن کا پروردہ مجلس میں غزل خواں کیا ہوگا

ممکن نہیں تبدیلی آئے اشیائے جہاں کی فطرتؔ میں
پتھر ہے بہر صورت پتھریہ لعل بدخشاں کیا ہوگا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام