کتنے نالے تھے جو شرمندۂ تاثیر ہوئے

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

کتنے نالے تھے جو شرمندۂ تاثیر ہوئے
ریگِ زریں پہ کبھی قصر نہ تعمیر ہوئے
جن کو شاخوں سے اُڑا لے گئی امواجِ صبا
وہی گل خاکِ چمن کے لئے اکسیر ہوئے
شب کے پہلو میں کہیں پھوٹ رہی ہے پَو بھی
کبھی دنیا میں اندھیرے نہ جہاں گیر ہوئے
ہم اصولوں کے حصاروں میں چھپے لاکھ مگر
اک نگاہِ غلط انداز سے تسخیر ہوئے
وہی آواز کی قوسیں وہی تانوں کے خطوط
چند نغمے تھے جو مل کر تری تصویر ہوئے
ایک انداز تو ہے بے سر و سامانی کا
ہم تری دھن میں ترے غم سے بغل گیر ہوئے
ایک امیدِ ملاقات نے مرنے نہ دیا
ترے پیماں مری سانسوں کے عناں گیر ہوئے
تجھ سے مل کر تجھے پا لینے کی حسرت جاگی
کچھ نئے خواب ترے خواب کی تعبیر ہوئے
اک خلا طۓ ہوئی اک اور خلا کی حد پر
اپنے شہپر نہ ہوئے حلقۂ زنجیر ہوئے
ہم نے ہر شعر میں تصویرِ جراحت کھینچی
لوگ وارفتۂ رنگینیٔ تحریر ہوئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام