پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے
ہائے خوابوں کی خیاباں سازیاں
آنکھ کیا کھولی چمن مرجھا گئے
کون تھے آخر جو منزل کے قریب
آئینے کی چادریں پھیلا گئے
کس تجلی کا دیا ہم کو فریب
کس دھندلکے میں ہمیں پہنچا گئے
ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا
اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے
اک پہیلی کا ہمیں دے کر جواب
اک پہیلی بن کے ہر سو چھا گئے
پھر وہی اختر شماری کا نظام
ہم تو اس تکرار سے اکتا گئے
رہنماؤ! رات ابھی باقی سہی
آج سیارے اگر ٹکرا گئے
جن کو ہم سمجھا کئے ابرِ بہار
وہ بگولے کتنے گلشن کھا گئے
کیا رسا نکلی دعائے اجتہاد
لیجئے اگلے زمانے آ گئے
آدمی کے ارتقاء کا مدّعا
وہ چھپاتے ہی رہے ہم پا گئے
اب کوئی طوفاں ہی لائے گا سحر
آفتاب ابھرا تو بادل چھا گئے
بس وہی معمار فردا ہیں ندیمؔ
جن کو میرے ولولے راس آ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام