فسانہ ہو گئے آزار دشمن کی برائی کے

غزل| برج نرائن چکبستؔ انتخاب| بزم سخن

فسانہ ہو گئے آزار دشمن کی برائی کے
لگے وہ زخم دل پر دوستوں کی بے وفائی کے
بروں سے بھی یہاں برتاؤ رکھتے ہیں بھلائی کے
بنایا با وفا اس دل کو صدقے بے وفائی کے
زمانہ کی محبت پر نہ ہو اے ہم نشین نازاں
سنائیں گے تجھے فرصت میں قصّے آشنائی کے
یہ وہ غم ہے کہ جس کی پرورش دل خوب کرتا ہے
زبان تک لا نہیں سکتا ہوں شکوے بے وفائی کے
جِلا دی دل کو میرے قلبِ دشمن کی سیاہی نے
کدورت واں بڑھی اور یاں کھلے جوہر صفائی کے
درِ تدبیر پر سر پھوڑنا شیوہ رہا اپنا
وسیلے ہاتھ ہی آئے نہ قسمت آزمائی کے

نئی تہذیب کے صدقے نہ شرمانے دیا دل کو
رہے منطق کے پردے میں کرشمے بے حیائی کے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام