بستیوں میں ہونے کو حادثے بھی ہوتے ہیں

غزل| غلام ربانی تاباںؔ انتخاب| بزم سخن

بستیوں میں ہونے کو حادثے بھی ہوتے ہیں
پتھروں کی زد پہ کچھ آئینے بھی ہوتے ہیں
عافیت سفینوں کی سیلِ آب میں معلوم
بات یہ ہے کچھ مانجھی سر پھرے بھی ہوتے ہیں
شہرِ آشنائی کی ریت کچھ نرالی ہے
قربتوں کے پیمانے فاصلے بھی ہوتے ہیں
گود میں بیاباں کے تشنگی بھی پلتی ہے
دور تک سرابوں کے سلسلے بھی ہوتے ہیں
دشتِ شوق میں کس کو دادِ خستگی دیجئے
ہم سفر مسافر کے راستے بھی ہوتے ہیں
موجِ گل کے موسم میں موجِ خوں کے موسم تک
طے کئی غمِ دل کے مرحلے بھی ہوتے ہیں

گردِ رہ گزر تاباں تنگِ رہ گزر کیوں ہو
گرد میں چھپے اکثر قافلے بھی ہوتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام