کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں

غزل| فناؔ بلند شہری انتخاب| بزم سخن

کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے دردِ دل جس کی کوئی دوا نہیں
میری نمازِ عشق کو شیخ سمجھ سکے گا کیا
اس نے درِ حبیب پہ سجدہ کبھی کیا نہیں
مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں میرا کوئی خدا نہیں
کیسے ادا کروں نماز کیسے جھکاؤں اپنا سر
صحنِ حرم میں شیخ جی یار کا نقشِ پا نہیں
کیا ہیں اصولِ بندگی اہلِ جنوں کو کیا خبر
سجدہ روا کہاں پہ ہے سجدہ کہاں روا نہیں
مجھ سے شروعِ عشق میں مل کے جو تم بچھڑ گئے
بات ہے یہ نصیب کی تم سے کوئی گلہ نہیں
مجھ کو رہِ حیات میں لوگ بہت ملے مگر
ان سے ملا دے جو مجھے ایسا کوئی ملا نہیں
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغِ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں

عشق کی شان مرحبا عشق ہے سنتِ خدا
عشق میں جو بھی مٹ گیا اس کو کبھی فناؔ نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام