فطرتِ عشق گنہ گار ہوئی جاتی ہے

غزل| سراجؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

فطرتِ عشق گنہ گار ہوئی جاتی ہے
فکرِ دنیا بھی غمِ یار ہوئی جاتی ہے
دل میں اک روح سی بیدار ہوئی جاتی ہے
آج یہ کس سے نظر چار ہوئی جاتی ہے
کتنا نازک ہے خدا رکھے محبت کا مزاج
اب تسلّی بھی دل آزار ہوئی جاتی ہے
جب سے چھینی ہے تری یاد نے نیند آنکھوں کی
دل کی جو حس ہے وہ بیدار ہوئی جاتی ہے
آہ پابندیٔ آدابِ محبتِ توبہ
ٹھنڈی ہر سانس گنہ گار ہوئی جاتی ہے
چھو لیا عرش کو منصور کی انگڑائی نے
صاف گوئی رسن و دار ہوئی جاتی ہے
اب تو ہر سانس میں ہے ترے قدم کی آہٹ
دل کی جنبش تری رفتار ہوئی جاتی ہے
ہر تجلی ہے ترے سامنے شرمندہ سی
چاندنی سایۂ دیوار ہوئی جاتی ہے

شکریہ شوخیٔ حسنِ پسِ پردہ کا سراجؔ
آنکھ بے دیکھے گنہ گار ہوئی جاتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام