گرا تو تھا آسمان سے کچھ کھجور میں رہ گیا اٹک کر

غزل| ناطقؔ گلاؤٹھوی انتخاب| بزم سخن

مرے مقدّر میں جو لکھا تھا نصیب سے وہ پہنچ نہ پایا
گرا تو تھا آسمان سے کچھ کھجور میں رہ گیا اٹک کر
مصیبت آ تو گئی تھی لیکن ہوئی وہ آپ الٹے پاؤں رخصت
لگا جو تھا زندگی کا کانٹا نکل گیا چار دن کھٹک کر
وہاں ہیں اب ہم کہ کیا بتائیں وہ پیچ و خم ہیں کہ کچھ نہ پوچھو
یہ چال راہِ طلب کی دیکھو کہ چل رہی ہے مٹک مٹک کر
یہ کیسی وحشت اثر خبر ہے پتا تو اے باغباں لگانا
کھڑے ہوئے کان کیوں گلوں کے کلی نے کیا کہہ دیا چٹک کر
کیا جو ڈر ڈر کے عرضِ مطلب تو مجھ سے یہ کہہ دیا انہوں نے
سبق نہیں یاد ابھی یہ تم کو سنا رہے ہو اٹک اٹک کر
خود اپنا رستہ سدھار ناطقؔ نہ فکر کر شیخ و برہمن کی
وہیں تو جاتے ہیں راستے سب کوئی کہاں جائے گا بھٹک کر



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام