ابابیلوں کی یہ پرواز کیا ہے

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

ابابیلوں کی یہ پرواز کیا ہے
کہو اس بے کلی کا راز کیا ہے
مچا ہے شور سا ہونٹوں کے پیچھے
یہی چپ ہے تو پھر آواز کیا ہے
مجھے خوف آ رہا ہے قہقہوں سے
بھلا رونے کا یہ انداز کیا ہے
میں آپ اپنا تعاقب کر رہا ہوں
یہ عالم اے مرے دم ساز کیا ہے
سبھی خاموش ہیں پیاسے بھی رہ کر
تری محفل کا یہ اعجاز کیا ہے
قتیلؔ اس شہرِ غوغا میں نہ تو بول!
یہاں پیارے تری آواز کیا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام