کڑی تنہائیوں کا ہم سفر کہتا رہا ہوں میں

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

کڑی تنہائیوں کا ہم سفر کہتا رہا ہوں میں
خیالِ یار! تجھ کو معتبر کہتا رہا ہوں میں
مرے ضعفِ بصارت کا بھی ملتا ہے ثبوت اس سے
کہ نابیناؤں کو اہلِ نظر کہتا رہا ہوں میں
رہٹ میں جوت کر ہانگا کیا ہے بارہا مجھ کو
کنویں کے گرد پھیروں کو سفر کہتا رہا ہوں میں
کرایا شامِ فرقت نے تعارف ایک نیا اس کا
وہ ایک دریا کہ جس کو چشمِ تر کہتا رہا ہوں میں
وہاں بھی لوگ اپنی کرچیاں چنتے نظر آئے
جہاں کے پتّھروں کو بے ضرر کہتا رہا ہوں میں
نظر کے زاویے تبدیل کر دیتے ہیں کچھ چہرے
وہ قاتل تھا جِسے جان و جِگر کہتا رہا ہوں میں
حقیقت میں جو سر ہوتا تو گرتا تیرے قدموں میں
جو ہے اک بوجھ تن پر اس کو سر کہتا رہا ہوں میں

صلہ اب اور کیا مانگوں قتیلؔ! اپنی عبادت کا
یہی میری جنّت جس کو گھر کہتا رہا ہوں میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام