شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی

غزل| بہادر شاہ ظفرؔ انتخاب| بزم سخن

شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
جوڑے کی گندھاوٹ قہرِ خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضب
اور اس میں شرابِ سرخیٔ پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی
ہر بات میں اس کے گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے
قامت ہے قیامت چال پری چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہی
گر رنگ بھبوکا آتش ہے اور بینی شعلۂ سرکش ہے
تو بجلی سی کوندے ہے پڑی عارض کی چمک پھر ویسی ہی
نوخیز کچیں دو غنچے میں ہے نرم شکم اک خرمنِ گل
باریک کمر جوں شاخِ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی
ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق بلوریں شمع ضیا پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی
محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ نپٹ
جالی کی کرتی ہے وہ بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی
وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیوے جان نکال
ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگرو کی جھنک پھر ویسی ہی

ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے رکاوٹ مدت سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام