کوئی حادثہ کوئی واقعہ نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا

غزل| سرفراز بزمیؔ انتخاب| بزم سخن

کوئی حادثہ کوئی واقعہ نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
وہی چوٹ دل پہ لگی ہوئی وہی درد تیرا دیا ہوا
اسے پیش کر مرے نامہ بر یہ تھکی تھکی مری چشمِ تر
یہی ایک نامۂ مختصر نہ لکھا ہوا نہ پڑھا ہوا
ترا خط ہے یا کوئی زخمِ دل کہیں مندمل کہیں مستقل
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
کوئی محوِ حسن و جمال تھا کہ کمالِ شوق وصال تھا
لبِ اوج سدرۂ منتہیٰ نہ رکا ہوا نہ تھکا ہوا
ترے مدرسوں میں کہاں رہی وہ دل و ضمیر کی روشنی
تری خانقاہ سے بوذری کا جلال کب کا ہوا ہوا
وہی بت فروشی و بت گری وہی جرم شیوۂ آذری
وہی سامری وہی ساحری وہی طور سر پہ اٹھا ہوا
یہ شرر شرر رہِ پر خطر یہ شکستہ پر یہ قفس کا ڈر
کبھی اِس کے در کبھی اُس کے در کبھی در بدر سا کیا ہوا
وہ حکایتیں وہ شکایتیں نہ کہی ہوئی نہ سنی ہوئی
یہ جنوں کی آہ فلک رسا وہ چراغِ حسن بجھا ہوا

اسے راس آ نہ سکی کبھی سرِ میکدہ تری بے رخی
وہی تیرا بزمیؔ وہ بادہ کش نہ جھکا ہوا نہ بکا ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام