آہ جو دل سے نکالی جائے گی

غزل| اکبرؔ الہ آبادی انتخاب| بزم سخن

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
یاد ان کی ہے بہت عزلت پسند
آہ بھی دل سے نکالی جائے گی
نزع کہتی ہے کہ روٹھی تجھ سے جان
حشر کہتا ہے منا لی جائے گی
اس نزاکت پر یہ شمشیرِ جفا
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی
بے تکلف چاہیئے سوز و گداز
شمع کیوں سانچے میں ڈھالی جائے گی
کیا غمِ دنیا کا ڈر مجھ رند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی
زندگی کی کل ہے پیچیدہ ضرور
سانس لے لے کر چلا لی جائے گی
شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی
یادِ ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں
کب تری یہ کج خیالی جائے گی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام