جو فطرتِ غم ناکام ہوئی اک لذّتِ حرماں پا ہی گئی

غزل| نشورؔ واحدی انتخاب| بزم سخن

جو فطرتِ غم ناکام ہوئی اک لذّتِ حرماں پا ہی گئی
جینے کو دعائیں دیتا ہوں مرنے کی ادا کچھ آ ہی گئی
یہ صحنِ چمن یہ باغِ جہاں خالی تو نہ تھا نکہت سے مگر
کچھ دامنِ گل سے دور تھا میں کچھ بادِ صبا کترا ہی گئی
احساسِ الم اور پاسِ حیا اس وقت کا آنسو صہبا ہے
اس چشمِ حسیں کو کیا کہیئے جب پی نہ سکی چھلکا ہی گئی
خودبیں تھا مزاجِ حسن مگر دامانِ محبت چھو ہی گیا
اندازِ تغافل کچھ بھی سہی کچھ ان کی نظر فرما ہی گئی
ڈوبی ہوئی نبضوں کو آخر طوفاں کی رگوں سے خون ملا
ٹوٹی ہوئی کشتی تھی لیکن ساحل سے کبھی ٹکرا ہی گئی
اِس دور میں کتنے شیخِ حرم میخانے کا رستہ پوچھ گئے
ساقی کی نظر بیگانہ سہی کچھ کارِ جہاں سمجھا ہی گئی
ہر شعلہ گرِ عہدِ ظلمت انجام سے اپنے ڈرتا ہے
جب ذکرِ سحر محفل میں چھڑا کچھ شمع کی لو تھرّا ہی گئی
میرا ہی گلستاں کیوں نہ مٹے میرا ہی نشیمن کیوں نہ جلے
اب تیرہ شبی کا شکوہ نہیں بجلی جو گری چمکا ہی گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام