پوسٹ مین اس بت کا خط لاتا نہیں

بزم مزاح| اخترؔ شیرانی انتخاب| بزم سخن

پوسٹ مین اس بت کا خط لاتا نہیں
اور جو لاتا ہے پڑھا جاتا نہیں
عاشقی سے کیوں ہم استعفیٰ نہ دیں
ہوٹلوں کا بل دیا جاتا نہیں
شیخ جی موٹر پہ حج کو جائیے
عہدِ نو میں اونٹ کام آتا نہیں
بوسہ لیں اس سرو قد کا کس طرح
تار پر ہم سے چڑھا جاتا نہیں
عاشقوں پر ظلم کرنا چھوڑ دیں
کیوں بے قاصد جا کے سمجھاتا نہیں
رات دن فرمائشیں زیور کی ہیں
ہم سے اب عاشق رہا جاتا نہیں
بزم میں دشمن ہے کیوں خاموش آج
بھائی جھیلا کس لئے گاتا نہیں
جل گئی سگریٹ سے داڑھی شیخ کی
یہ مگر فیشن سے باز آتا نہیں
فربہی کا طنز کیوں مشتاق پر
تیری چکی سے تو پسواتا نہیں
فیس پہلے جب تلک رکھوا نہ لے
ڈاکٹر اپنے بھی گھر جاتا نہیں
بیکری میں نوکری کرنی پڑی
وہ سوائے کیک کچھ کھاتا نہیں
تیری فرقت میں بہت فاقے کٹے
آ کہ اب بھوکا رہا جاتا نہیں
کب سے ہے مہمان تو اے ہجرِ یار
بھائی میرے گھر سے کیوں جاتا نہیں
او ستم گر! روکنا موٹر ذرا
میرے خچر سے چلا جاتا نہیں
لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں
پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں
حضرتِ ابن بطوطہ کی غزل
ضد کے مارے وہ صنم گاتا نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام