اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں

غزل| خارؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں
کوئی تو بات ہے آخر تیرے دیوانے میں
فیضِِ ساقی سے جو محروم ہیں میخانے میں
جانے کیا ہم سے خطا ہوگئی انجانے میں
وقت کی بات ہے اب اس کے ترستے ہیں لب
'جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں'
ہم نے مانا کہ عدو بھی تیرا شیدائی ہے
فرق ہوتا ہے فدا ہونے میں مر جانے میں
دل ربائی کہ جسے ہم نے سکھائے انداز
جانِ محفل ہے وہی غیر کے کاشانے میں
ہر ادا دل کے لئے دشنہ و خنجر ہے مگر
اور ہی بات ہے ظالم ترے شرمانے میں
نہ تسلی نہ تشفی نہ کوئی پیار کی بات
تجھ کو کیا ملتا ہے کافر ہمیں تڑپانے میں
ساقیا مے جو نہیں باقی تو تلچھٹ ہی سہی
ڈال دے نامِ خدا تھوڑی سی پیمانے میں
میری جانب سے تیرے دل میں غبار آ ہی گیا
آخرش آ ہی گیا غیر کے بھڑکانے میں
عشق کی آگ سوا کس میں ہے یہ کون کہے
شمع کے سینہُ سوزاں میں کہ پروانے میں

خارؔ ہے جلوہُ اصنام سے دل خلدِ بریں
یا پری زادوں کا مجمع ہے پری خانے میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام