تمام آگ ہے دل راہ خار و خس کی نہیں

غزل| ڈاکٹر بشیر بدرؔ انتخاب| بزم سخن

تمام آگ ہے دل راہ خار و خس کی نہیں
یہی گلی ہے جہاں سلطنت ہوس کی نہیں
گلوں کی چھاؤں تمازت کے تپتے شہر سے دور
مجھے عزیز ہے بے شک مگر قفس کی نہیں
اُتار دے مری آنکھوں سے آنسؤوں کے غلاف
چمک ضرور ہے اِن میں مگر ہوس کی نہیں
بس ایک شام کی لذت بہت غنیمت جان
عظیم پاک محبت ہر اک کے بس کی نہیں
تھکی تھکی ہوئی بانہوں میں آ کے کھو جانا
یہ خود سپرد گئی جسم و جاں ہوس کی نہیں
تھا ایک شخص ہر اک شخص اس پہ عاشق تھا
یہ بات کل کی ہے دو چار دس برس کی نہیں
سحر کے پھول تھے جن پر یہ رات گذری تھی
شناخت کر یہ مہک تیرے خار و خس کی نہیں
نصاب دل کا کہاں رکھ دیا کتابوں میں
غزل کی آگ ہے یہ کاغذوں کے بس کی نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام