گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی

غزل| خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ انتخاب| بزم سخن

گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
نگاہِ مست اور پھر اُف چشمِ سرمگیں ساقی
مئے دو آتشہ ہے یہ شرابِ آتشیں ساقی
ٹلوں گا میں نہ ہرگز لاکھ ہو تو خشمگیں ساقی
کہ جو مے سب سے بہتر ہے وہ ملتی ہے یہیں ساقی
یہ کس بھٹی کی دی تو نے شرابِ آتشیں ساقی
کہ پیتے ہی رگوں میں بجلیاں سی بھر گئیں ساقی
دمِ آخر تو اٹھ جائے یہ چشمِ شرمگیں ساقی
نگاہِ مست ملتے ہی نگاہِ واپسیں ساقی
میں ہوں اب تک محروم گو ہے وقتِ واپسیں ساقی
مری قسمت کی تیرے میکدہ میں کیا نہیں ساقی
مجھے سارے مزے جنت کے حاصل ہیں یہیں ساقی
کہ کوثر مے ہے غلماں مغبچے تو حورِ عیں ساقی
دبانے پڑ رہے ہیں ولولے مستی کے رندوں کو
غضب ہے دیکھنا تیرا بچشمِ شرمگیں ساقی
جو تر دامن ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے
گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہے آستیں ساقی
یہ فصلِ گل بایں ابرِ سیاہ و برقِ تاباں ہے
کہ در کف ساغر و بر دوش زلفِ عنبریں ساقی
نظر میں جانچ لیتا ہے کہ کس کا ظرف کتنا ہے
دکھائے کوئی ایسا نکتہ رس اور دور بیں ساقی
کہاں سے مجھ کو پہنچایا کہاں پیرِ مغاں تو نے
مرا مے خانہ اب لاہوت ہے روح الامیں ساقی
گدائے میکدہ ہوں مست ہوں اپنی گدائی میں
یہ ہے سنگ درِ میخانہ مجھ کو شہ نشیں ساقی
ریائی گریہ ہم رندوں کو اے صوفی نہیں آتا
کہ رکھتا ہے لبِ خنداں دل اندوہگیں ساقی

یہی باتیں تو مجذوبؔ اپنی بڑ میں بھی سناتا ہے
ذرا سنبھلے ہوئے لفظوں میں جو تو نے کہیں ساقی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام