میں ٹوٹ کر اسے چاہوں یہ اختیار بھی ہو

غزل| فاطمہؔ حسن انتخاب| بزم سخن

میں ٹوٹ کر اسے چاہوں یہ اختیار بھی ہو
سمیٹ لے گا مجھے اس کا اعتبار بھی ہو
نئی رتوں میں وہ کچھ اور بھی قریب آئے
گئی رتوں کا سلگتا سا انتظار بھی ہو
میں اس کے ساتھ کو ہر لمحہ معتبر جانوں
وہ ہم سفر ہے تو مجھ سا ہی بے دیار بھی ہو
مرے خلوص کا انداز یہ بھی سچا ہے
رکھوں نہ ربط مگر دوستی شمار بھی ہو

سفر پہ نکلوں تو رسمِ سفر بدل جائے
کنارا بڑھ کے کبھی خود ہی ہم کنار بھی ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام