کيا کہوں اپنے چمن سے ميں جدا کيوں کر ہوا

غزل| علامہ محمد اقبالؔ انتخاب| بزم سخن

کيا کہوں اپنے چمن سے ميں جدا کيوں کر ہوا
اور اسيرِ حلقۂ دامِ ہوا کيوں کر ہوا
جائے حيرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں ميں
مجھ کو يہ خلعت شرافت کا عطا کيوں کر ہوا
کچھ دکھانے ديکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کيا خبر ہے تجھ کو اے دل فيصلہ کيوں کر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغِ دل دامِ تمنا سے رہا کيوں کر ہوا
ديکھنے والے يہاں بھی ديکھ ليتے ہيں تجھے
پھر يہ وعدہ حشر کا صبر آزما کيوں کر ہوا
حسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں ميں پنہاں خود نما کيوں کر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق!
چارہ گر ديوانہ ہے ميں لا دوا کيوں کر ہوا
تو نے ديکھا ہے کبھی اے ديدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پيدا خاک سے رنگيں قبا کيوں کر ہوا
پرسشِ اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ کيا ہوا کيوں کر ہوا
ميرے مٹنے کا تماشا ديکھنے کی چيز تھی
کيا بتاؤں ان کا ميرا سامنا کيوں کر ہوا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام