تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لئے

غزل| صادقؔ حسین کاظمی انتخاب| بزم سخن

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لئے
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لئے
نیم جاں ہے کس لئے حالِ خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لئے
چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لئے
استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لئے
چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائلِ جور و ستم
بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لئے
آتشِِ نمرود گر بھڑکی تو کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لئے
مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لئے
دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لئے​


علامہ اقبال سے غلط منسوب کردہ شعر اور غزل جو کہ در اصل جناب سید صادق حسین کاظمی کی ہے اور ان کی کلیات "برگ سبز" (کلیات صادق) میں موجود ہے ، خیال رہے کہ اوپر تحریر کردہ غزل کا چوتھا، پانچواں ، چھٹا اور ساتواں شعر 1977ء مطبوعہ ایڈیشن میں موجود نہیں ہے۔


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام