نگاہ و دل کا افسانہ قریبِ اختتام آیا

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

نگاہ و دل کا افسانہ قریبِ اختتام آیا
ہمیں اب اس سے کیا آئی سحر یا وقتِ شام آیا
زبانِ عشق پر اک چیخ بن کر تیرا نام آیا
خرد کی منزلیں طے ہو چکیں دل کا مقام آیا
اٹھانا ہے جو پتھر رکھ کے سینہ پر وہ گام آیا
محبت میں تری ترکِ محبت کا مقام آیا
اسے آنسو نہ کہہ اک یادِ ایامِ گذشتہ ہے
مری عمرِ رواں کو عمرِ رفتہ کا سلام آیا
ذرا لو اور دل کی تیز کر سیلا سا یہ شعلہ
نہ روشن کر سکا گھر کو نہ محفل ہی کے کام آیا
نظامِ میکدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے
ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا
ابھی تک صیدِ یزداں و صنم اولادِ آدم ہے
بشر انساں نہیں رہتا جہاں ایماں کا نام آیا
بہار آتے ہی خوں ریزی ہوئی وہ صحنِ گلشن میں
خجل کانٹے تھے یوں پھولوں کو جوشِ انتقام آیا
بھلائے آبلہ پاؤں کو بیٹھے تھے چمن والے
گرجتی آندھیاں آئیں کہ صحرا کا سلام آیا
سحر کی حور کے کیا کیا نے دیکھے خواب دنیا نے
مگر تعبیر جب ڈھونڈی وہی عفریتِ شام آیا
کبھی شاید اسی سے رنگ فردوسِ بشر پائے
ابھی تک تو لہو انساں کا شیطاں ہی کے کام آیا
مکمل تبصرہ کرتا ہوا ایامِ رفتہ پر
نگاہِ بے سخن میں ایک اشکِ بے کلام آیا
توانا کو بہانہ چاہیے شاید تشدّد کا
پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتّہام آیا
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

برہمن آبِ گنگا شیخ کوثر لے اڑا اس سے
ترے ہونٹوں کو جب چھوتا ہوا ملاؔ کا جام آیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام