دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے

غزل| مومن خاں مومنؔ انتخاب| بزم سخن

دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے گلِ شمع شبستاں ہوں گے
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ نادان ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
کر کے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدئ زنداں ہوں گے
منتِ حضرتِ عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لئے شرمندۂ احساں ہوں گے
تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے
گل نہ ہوں گے شررِ آتشِ سوزاں ہوں گے
داغِ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے
چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے

عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ!
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام