اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

غزل| مومن خاں مومنؔ انتخاب| بزم سخن

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوق تلخکامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
آہ طولِ امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم بر خصمِ جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام