سفر کے ہیں جو تقاضے نظر میں رکھتا چل

غزل| مخمورؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

سفر کے ہیں جو تقاضے نظر میں رکھتا چل
کچھ احتیاط بھی راہِ سفر میں رکھتا چل
نکل کے گھر سے نہ کام آئیں گی یہ توقیریں
غرورِ نام و نسب اپنے گھر میں رکھتا چل
مسافروں کی ودیعت یہی تو ہوتی ہے
کچھ اپنے خواب کسی چشمِ تر میں رکھتا چل
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں قافلے کتنے
کوئی چراغ کسی رہ گزر میں رکھتا چل
بری نہیں ہے سفر میں یہ پیش اندیشی
خطر کا دھیان رہِ بے خطر میں رکھتا چل
عجب نہیں کہ یہی حاصلِ سفر ٹھہریں
یہ راستے کے ہیں منظر نظر میں رکھتا چل
مسافرت کی یہ سوغات بانٹ دے ہر سو
اداسیوں کی فضا دشت و در میں رکھتا چل
تھکن سے دور رہیں گی مسافتیں تیری
قدم قدم تو جہانِ دگر میں رکھتا چل

فروغ شعلۂ جاں اس کو سونپ دے مخموؔر
یہ روشنی بھی چراغِ ہنر میں رکھتا چل


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام