جواب : نقشِ کہن ۔ ۔ ! جب آپ کو قریب نہ پایا کروں گی میں

نظم| جونؔ ایلیا انتخاب| قتیبہ جمال

جب آپ کو قریب نہ پایا کروں گی میں
روٹھوں گی خود سے خود کو منایا کروں گی میں
اب میرے آنسوؤں کی پناہیں نہیں رہیں
اب اپنے آنسوؤں کو چھپایا کروں گی میں
رخصت ہوا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب کس کے پاس شام کو جایا کروں گی میں؟
ہاں وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
اب حسرتوں کے داغ اٹھایا کروں گی میں
ہاں اب کسی سماعتِ ہم سایہ کے لئے
اونچے سروں میں گیت نہ گایا کروں گی میں
مطلب ہی اب نہیں ہے کسی بات سے مجھے
اب بات بات کو نہ بڑھایا کروں گی میں
انجام کے اداس اندھیروں میں بیٹھ کر
آغاز کے چراغ جلایا کروں گی میں
ہم جھولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات!
ماضی کا وقت سنایا کروں گی میں
حیرت ہے آپ کا مرے بارے میں یہ خیال
دل میں کوئی خلش ہی نہ پایا کروں گی میں؟
شکلین بنا بنا کے مٹایا کریں گے آپ
شکلین مٹا مٹا کے بنایا کروں گی میں؟
حالات سے نباہ ، یہ کیا کررہے ہیں آپ!
حالات کا مذاق اڑایا کروں گی میں؟
کیا ہو گئے ہیں آپ بھی کچھ مصلحت پسند
کیا اب فریبِ ہجر ہی کھایا کروں گی میں؟
کیا اِضطرابِ روح بھی برباد ہو گیا؟
کیا یوں ہی اپنے دل کو جلایا کروں گی میں؟
ہے اس روِش کا نام اگر زندگی تو پھر
خود زندگی کو بحث میں لایا کروں گی میں
بس آپ ہی نہ دیجیے یہ مشورے مجھے
ہیں اور بھی ستم جو اٹھایا کروں گی میں
نقشِ کہن کو دل سے مٹایا نہ جائے گا
گزرے ہوئے دنوں کو بھلایا نہ جائے گا​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام