سینے میں جاگتا ہے جب رنجِ بے مکانی

غزل| عزمؔ بہزاد انتخاب| بزم سخن

سینے میں جاگتا ہے جب رنجِ بے مکانی
ہم اپنی خواہشوں پر کرتے ہیں نوحہ خوانی
ہر خوابِ آرزو اب حسرت میں ڈھل رہا ہے
ہر لحظہ ہو رہی ہے تحریر ایک کہانی
ہم کتنے سخت جاں تھے لیکن ترے ستم نے
آنکھوں کو بخش دی ہے دریاؤں کی روانی
مضبوط دست و بازو رکھتے ہیں سب ہی لیکن
کھلتے نہیں ہر اک پر اسرارِ نوجوانی

تو عزمؔ خود کو کیوں کر چپ رکھنا چاہتا ہے
کیا تجھ کو ہو چلا ہے احساسِ ناتوانی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام