میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا

غزل| عزمؔ بہزاد انتخاب| بزم سخن

میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
اک دن بھی اگر اپنی تنہائی سے ڈر جاتا
میں ترکِ تعلق پر زندہ ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس کے لئے جیتا اپنے لئے مر جاتا
اس رات کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں ورنہ سنور جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا
اس جانِ تکلم کو تم مجھ سے تو ملواتے
تسخیر نہ کر سکتا حیران تو کر جاتا
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
میں شہر کی رونق میں گم ہو کے بہت خوش تھا
اک شام بچا لیتا اک روز تو گھر جاتا

محروم فضاؤں میں مایوس نظاروں میں
تم عزمؔ نہیں ٹھہرے میں کیسے ٹھہر جاتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام