رات آنکھوں میں ڈھلی پلکوں پہ جگنو آئے

غزل| ڈاکٹر بشیر بدرؔ انتخاب| بزم سخن

رات آنکھوں میں ڈھلی پلکوں پہ جگنو آئے
ہم ہواؤں کی طرح جا کے اسے چھو آئے
میرا آئینہ بھی اب میری طرح پاگل ہے
آئینہ دیکھنے جاؤں تو نظر تو آئے
ان فقیروں کو غزل اپنی سناتے رہیو
جن کی آواز میں درگاہوں کی خوشبو آئے
بس گئی ہے مرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں تیری خوشبو آئے
اس کا دل دل نہیں پتھر کا کلیجہ ہوگا
جس کو پھولوں کا ہنر آنسو کا جادو آئے
خوبصورت ہیں بہت دنیا کے جھوٹے وعدے
پھول کاغذ کے لیے کانچ کے بازو آئے
اس کی آنکھیں مجھے میرؔا کا بھجن لگتی ہیں
پلکیں جھپکائیں تو لوبان کی خوشبو آئے
اس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسو آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام