اس طرح بانٹی ہے کس نے اس نگر میں روشنی

غزل| حفیظ شاہؔد انتخاب| بزم سخن

اس طرح بانٹی ہے کس نے اس نگر میں روشنی
میرے گھر میں ہے اندھیرا تیرے گھر میں روشنی
جب کہ ابھرا ہی نہیں سورج کسی کی یاد کا
پھر کہاں سے آئی ہے قلب و نظر میں روشنی
کس کی بربادی کا غم ہے کس کے لٹ جانے کا سوگ
بال کھولے رو رہی ہے کیوں کھنڈر میں روشنی
جب اندھیروں ہی میں ہے ڈوبا ہوا سارا نگر
میں کہاں سے لے کے آؤں اپنے گھر میں روشنی
دل کی بستی میں لہو کے جل رہے ہیں کچھ چراغ
ان چراغوں سے ہے میری چشمِ تر میں روشنی
مرحلہ درپیش تھا اندھی مسافت کا مجھے
میری رہبر تھی مگر راہِ سفر میں روشنی

کچھ تو باقی ہے اثر شاہؔد اندھیری رات کا
اس قدر مدھم جو ہے میری سحر میں روشنی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام