رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا

غزل| شکیل جاذبؔ انتخاب| ابو الحسن علی

رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا
ما سوائے تنہائی عشق کی کمائی کیا
خالی خالی آنکھیں ہیں کھوکھلے سے جسموں پر
بے یقیں رفاقت میں وصل کیا جدائی کیا
ضبط سے تکلم تک سب کا سب ہی دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
جون جیسے حلیے سے جون تو نہیں بنتا
دشتِ رائیگانی میں خاک بھی اڑائی کیا
کس کو خوفِ رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
میں لہو کی سرگوشی سن مجھے اکیلے میں
شور و غل میں دنیا کے دوں گا میں سنائی کیا

آپ بھر کے لائے ہو آگ اپنی جھولی میں
دل جلے کہ گھر جاذبؔ عشق میں دہائی کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام