وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے

غزل| صدؔا انبالوی انتخاب| بزم سخن

وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے
کیوں سدا پہنے وہ تیرا ہی پسندیدہ لباس
کچھ تو موسم کے مطابق بھی سنورنا ہے اسے
اس کو گلچیں کی نگاہوں سے بچائے مولٰی
وہ تو غنچہ ہے ابھی اور نکھرنا ہے اسے
ہر طرف چاہنے والوں کی بچھی ہیں پلکیں
دیکھئے کون سے رستے سے گزرنا ہے اسے
دل کو سمجھا لیں ابھی سے تو مناسب ہوگا
اک نہ اک روز تو وعدے سے مکرنا ہے اسے
خواب میں بھی کبھی چھونا تو وضو کر کے صدؔا
کبھی میلا کبھی رسوا نہیں کرنا ہے اسے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام