نہیں یہ فکر کوئی رہبرِ کامل نہیں ملتا

غزل| اسرار الحق مجازؔ انتخاب| بزم سخن

نہیں یہ فکر کوئی رہبرِ کامل نہیں ملتا
کوئی دنیا میں مانوسِ مزاجِ دل نہیں ملتا
کبھی ساحل پہ رہ کر شوق طوفانوں سے ٹکرائیں
کبھی طوفاں میں رہ کر فکر ہے ساحل نہیں ملتا
یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے
یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا
شکستہ پا کو مژدہ خستگانِ راہ کو مژدہ
کہ رہبر کو سراغِ جادۂ منزل نہیں ملتا
وہاں کتنوں کو تخت و تاج کا ارماں ہے کیا کہئے
جہاں سائل کو اکثر کاسۂ ساحل نہیں ملتا
یہ قتلِ عام اور بے اذن قتلِ عام کیا کہئے
یہ بسمل کیسے بسمل ہیں جنہیں قاتل نہیں ملتا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام