تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی وہ سعیٔ کرم فرما بھی گئے

غزل| اسرار الحق مجازؔ انتخاب| بزم سخن

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی وہ سعیٔ کرم فرما بھی گئے
اس سعیٔ کرم کو کیا کہئے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں کھولی ہی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
آشفتگیٔ وحشت کی قسم حیرت کی قسم حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ہم رازِ تبسم پا بھی گئے
رودادِ غمِ الفت اُن سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
اربابِ جنوں پر فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گذری
آئے تھے سوادِ الفت میں کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے
یہ رنگِ بہارِ عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو ائے ساقی!
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اُٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اُس محفلِ کیف و مستی میں اُس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام