لفظ تو ہوں لبِ گفتار نہ رہنے پائے

غزل| محسنؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

لفظ تو ہوں لبِ گفتار نہ رہنے پائے
اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے
کس طرح کے ہیں مکیں جن کی تگ و دو ہے یہی
در تو باقی رہیں دیوار نہ رہنے پائے
اُس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے
ایک ہی صورتِ آزار نہ رہنے پائے
ذہن تا ذہن مہکتا ہی رہے زخمِ ہنر
فصلِ حرف و لبِ اظہار نہ رہنے پائے
اب کے موسم میں یہ معیارِ جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے
کوئی درماں کہ ہوا چیخ رہی ہے محسؔن
نخلِ ہستی پہ کوئی بار نہ رہنے پائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام