جان کر بارِ قفس مجھ کو جو آزاد کیا

غزل| ساحرؔ ہوشیار پوری انتخاب| قتیبہ جمال

جان کر بارِ قفس مجھ کو جو آزاد کیا
یہ تماشا بھی عجب اے ستم ایجاد کیا
وہ بہاریں نہ فضائیں نہ وہ صحنِ گلشن
ہائے کس وقت میں صیاد نے آزاد کیا
وقت پڑ جائے تو اپنوں ہی پہ جاتی ہے نظر
میں نے کیا جرم کیا تم کو اگر یاد کیا
جب ازل ہی سے مقدر تھی ویراں نظری
کیسے کہہ دوں کہ مجھے آپ نے برباد کیا
دشتِ غربت میں بگولے جو گلے آ کے ملے
ہم نے بے مہریِ انساں کو بہت یاد کیا
کیا برا تھا جو محبت کا بھرم رکھ لیتے
تم نے کیوں دل کو میرے مائل فریاد کیا
پھول مہکے جو گلستاں میں تو آیا یہ خیال
پھر کسی بھولنے والے نے مجھے یاد کیا
سرفرازوں پہ تو ہر دور میں پتھر برسے
سرفرازی کا ہنر کس نے یہ ایجاد کیا
ہر تمناؤں کو دیتے رہے اخلاص کا رنگ
کس تغافل سے انہیں آپ نے برباد کیا
دل کہ مانوسِ غمِ دہر تھا اپنا ساحؔر
ہر مسرت نے اسے مائلِ فریاد کیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام